تعارف جماعت رضائے مصطفی

امام احمد رضا فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ کی جلیل القدر دینی و علمی خدمات اپنے پورے عہد پر چھائی ہوئی ہیں ۔ انہوں نے حمایت حق اور باطل کی سر کوبی کے لئے جو عظیم الشان کارنامے انجام دئیے ہیں تاریخ کا سینہ اب دن بہ دن ان کے انوار سے درخشاں اور تابناک ہوتا جارہاہے ۔ انہوں نے جو کچھ کیا محض رضائے الہی کی خاطر نہ کہ شہرت و عزت کی خواہش اور نہ صلہ و ستائش کی کوئی ہوس ۔ قلم کی نوک سے علم و فضل اور عشق و عرفان کی ایسی موسلادھار بارش برسائی کہ کشور ہند سے لے کر جزیرۃ العرب تک کی سر زمین جل تھل ہوگئی ۔ ہر دل شکر گزار اور ہر زبان مدح خواں ہوگئی ۔ تقدس رسالت کی جو تحریک آپ نے طوفانوں کی زد پر اٹھا رکھی تھی مخالفتوں کی پیہم یلغار میں بھی بڑھتی اور پھیلتی رہی۔ جس طرح آپ نے تبلیغ اسلام کے لئے متعد د کتب تصنیف کئے ایسے ہی آپ نے جب ہندوستان مخالفین اسلام کا اکھاڑہ بنا ہوا تھا اور اسلام اور اہل اسلا کو نست و نابود کرنے والی تحریکیں بڑے زور و شور سے چل رہی تھیں ۔ تو آپ نے احیاء سنت کے لئے آپ نے ١٣٣٩ھ/١٩٢٠ء کو جماعت رضائے مصطفی کے نام سے ایک کل ہند تحریک کی بنیاد ڈالی ۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک ہند وستان بھر میں چھاگئی ۔ تاسیس جماعت رضائے مصطفیٰ کا مقصد ١٩٢٠ء میں ہندوستان مخالفین اسلام کا اکھاڑا بنا ہوا تھا اسلام اور اہل اسلام کو نیست و نابود کرنے والی تحریکیں بڑے زور وشور سے چل رہی تھیں اس زمانے میں مسلمانوں کی بھی تنظیمیں تھیں ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں کی کوئی تحریک نہ ہو مسلم قیادت کے حامی اور داعی علماء اور لیڈروں کی کمی نہ تھی جیسے آج مسلم قیادت کا فقدان ہے ایسے ہی صورت اس زمانے میں تھی اور جو مسلم قائدین تھے تو وہ ہندؤوں کے فرمانبردار تھے انہیں اسلام او ر مسلمانوں سے کوئی ہمدردی و تعلق نہ تھا تنظیموں کی لاشیں اپنے سر براہوں کے کندھوں پر چل رہی تھیں ، اور کچھ تنظیمیں سسک سسک کر د م توڑ چکی تھیں مطلق العنانی دیکھکر مخالفین اسلام نے حملہ اور تیز کر دئے اور مسلم علماء انگریز سامراج کے ایجنٹ بن بیٹھے،نماز ،روزہ، حج و زکوٰۃ کے نام پر مسلمانوں سے پیسہ وصول کیا جاتا تھا پھر وہی پیسہ مسلمانوں کے خلاف استعمال ہوتا ۔ ایسی کسم پرسی کے دور میں امام احمد رضا فاضل بریلوی قدس سرہ، کی شخصیت کو رہا نہ گیا چونکہ وہ خود بھی احیاء سنت کی تحریک تھے قرآن و سنت اور سلف و صالحین کے طریقوں پر سختی سے قائم تھے اور مسلمانوں کو اسی پر عمل کرنے کی تلقین کرتے تھے ، اسلام پر مر مٹنے کے لئے تیار رہتے تھے،ایسے مسلم لیڈروں کے سخت مخالف تھے جو مسلمان ہو کر غیروں کے ہاتھوں میں بکے ہوئے ہوں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ، نے ٧/ربیع الآخر ١٣٣٩ھ / ١٩٢۰ء کو''جماعت رضائے مصطفیٰ'' کے نام سے ایک کل ہند تحریک کی بنیاد ڈالی۔اس پر آشوب دور کی ایک جھلک ان الفاظ میں پڑھئے جس نے امام احمد رضا قدس سرہ، کو جماعت رضائے مصطفی کی تاسیس پر مجبور کر دیا تھا حضرت سید ایوب علی رضوی نائب ناظم جماعت رضائے مصطفی بریلی رقم طراز ہیں۔ آہ اسلام ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اسلام کہ کن نوبتوں ،تکلیفوں کی برداشت سے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا باغ لگایا ،صحابہء کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم نے اپنے مقدس خوابوں سے اسے سینچا ۔۔۔۔۔آج کن کن مصائب میں مبتلاء ہے ، آج اس میں باغبانوں کا لباس پہن کرایسےلوگ داخل ہوگئےہیںجوباغ اسلام کے پھولوں کو پاؤںتلےمسلناچاہتے ہیں اس کےغنچوںکوپامال کرناان کی دلی تمنا ہے،اس کےخوشنمانونہالان چمن سردوشمشادکوبیخ وبن سےاکھاڑپھینکناان کی دلی خواہش ۔۔۔۔۔ کیاایسےوقت میںمسلمانوںپرفرض نہیں کہ ان بیخ کنان اسلام کی بیخ کنی میںجان توڑکوشش کریں۔۔۔۔۔۔۔۔ ہائے!اسلام اس وقت فریادی ہے وہ فریاد کر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ ہائے اس کی فریاد کو سننے والے دنیا میں بہت کم نظر آتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔بحمد اللہ تعالیٰ اس زمانہء پر فتن میں اہلسنت نےاس فریاد کو سنااوراس کی حمایت کے لئے جماعت مبارکہ جماعت رضائے مصطفی علیہ الصلوٰۃ والثناقائم کی ، اہل جماعت نےحمایت اسلام میںنمایاںحصہ لیا ، مصطفی کی مدد ونصرت سے جواس مقدس جماعت کےمقابل آیامنہ کےبل اوندھےگرا ۔ یہ کتناصاف وستھرامقصد ہے، اورکتناعمدہ واعلیٰ ہےجس سےکوئی شخص منحرف نہیں ہوسکتاجومذہب کادردرکھتاہواسلام کی محبت اورایمان کاایک حبہ بھی باقی ہو ۔۔۔۔ایسے ہی مقاصد عالیہ نے جماعت رضائے مصطفی کو مختصر مدت میں بام عروج پرپہنچادیاتھااکثرمسلمانوںکی حمایت جماعت رضائےمصطفی کوحاصل تھی مسلمان جوش وخروش سےاس کی ممبری قبول کر رہے تھے۔ نشاۃ ثانیہ :امام احمدرضابریلوی قدس سرہ کی قائم کردہ تنظیم جماعت رضائےمصطفی کئی انقلابی وہنگامی دورسےگزی،متعددبار سیاسی وقانونی ڈ ھانچہ تبدیل ہوا۔اور ہرباراس نئےعزم کےساتھ جماعت کی سرگرمیوں کوبرق رفتاری سے تیزترکردنیاہے ۔ اورایسے اشخاص تلاش کئےجائیںکہ ان کے وجودسےجماعت مبارکہ اورامت مسلمہ کوفائدہ پہچے۔تاکہ مسلم قوم کی فلاح وبہبودکی جانب قدم جماسکے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١٩٢٠ء١٣٣٩سے ١٩٢٦ء۔١٣٤٥ھ تک جماعت رضائے مصطفی نےعظیم الشان کارنامے انجام دیئےجن کی مثال نہیںپیش کی جاسکتی ہے۔ ١٩٢١ء کے بعد تنظیمی ڈھانچہ کمزور ہوتا چلا گیا پھر ١٩٦٠ء ۔١٣٨٠ ھ میں جماعت رضائے مصطفی نے دم توڑدی ۔۔۔۔۔۔ کچھ عرصہ تک کچھ سرمہری کااثررہا پھرنئےسرےسےجان ڈالنے کی کوشس ہونے لگیں ۔ ابتدأ جماعت رضائےمصطفی کی حیثیت ایک مقامی جمعیت کی تھی،اس جمعیت کےدوبڑےشعبےتھے۔علمی ۔۔۔ عملی ۔۔۔اس جمعیت نے دونوں پہلؤں پرتاریخ سازکردارسرانجام دیا۔رفتہ رفتہ اس کی حیثیت مرکزی بن گئی ، پورے بر صغیر میں جماعت رضائے مصطفی کی شاخیں قائم ہو گئیں ۔۔۔۔۔۔ جماعت کی مرکزی حیثیت بن جانے پراغراض ومقاصد اور قواعد و ضوابط میں تبدیلی ناگزیر ہو گئی ۔ جماعت رضائے مصطفی کی نشاۃ ثانیہ کے لئے ١٤جمادی الاولیٰ ١٣٨٣ھ ۔٣ اکتوبر ١٩٦٣ء کو مفتئی اعظم مولانا مصطفی رضابریلوی کی سرپرستی،اوربرہان ملت مفتی برہان الحق جبل پوری کے زیراہتمام آستانہ عالیہ سلامیہ جبل پورپرکل ھندجماعت رضائےمصطفی کاایک اجلاس منعقدہوا ۔جس میںدوبارجماعت کی تاسیس ہوئی ۔ ۔۔۔۔اورحسب ذیل دفعات کااضافہ کیاگیا۔ ١ کل ہند جماعت رضائے مصطفی کی دائمی سر پرستی پر حضور مفتئی اعظم بریلوی فرمائےں گے ۔ کل ہند جماعت رضائے مصطفی سارے ہند کی کل مقامی،ضلعی،صوبائی،اورکل ہندجملہ تنظیموں کی نگرانی اور جماعت ۲رضائے مصفطی ہوگی ۔ ہندوستان کی ساری سنی تنظیمیں اورجماعتیںکل ہندجماعت مبارکہ کے تحت رہیں گی ۔ ٣۔ مختلف سنی تنظیموں کے باہمی اختلاف کی شکل میں کل ہند جماعت مبارکہ کی حیثیت ثالث اور حکم کی ہوگی ۔ ٤۔ کل ہند جماعت رضائے مصطفی کی جماعت کی تظیم حسب ذیل ہوگی ۔ '(ا) ہر شہر میں دارالافتا ء قائم کرنا ۔ (ب) ہر شہر میں دارالقضاء قائم کرنا۔ (ج) ہر جگہ مکاتیب ومدارس اسلامیہ قائم کرنا۔ (د) ہندوستان کےہرمفتی شہر، اور قاضی کا تعلق کل ہند جماعت رضائے مصطفی سے ہوگا ۔ ٥ ۔۔ کل ہند جماعت رضائے مصطفی کا انتخاب ہر پانچ سال بعد ہوا کریگا ۔ ٦ ۔ ۔۔کل جماعت رضائے مصطفی کا مرکز دفتر بریلی ہی میں زیر نگرانی مفتئی اعظم رہے گا ۔ ٧ ۔۔۔ریلیف کمیٹی، مرکز جماعت رضائے مصطفی بریلی کی زیر نگرانی ، تر میم و تبدیل کے کل اختیارات سر پرست وصدر کل جماعت رضائے مصطفی کو حاصل رہیں گے ۔ ٨ ۔۔ ریلیف کمیٹی مرکز جماعت رضائے مصطفی کےعلاوہ اور کوئی ریلیف کمیٹی قائم نہ ہوگی ۔ ٩۔۔۔ ریلیف کمیٹی جماعت رضائے مصطفی کا کوئی انتخاب نہ ہوا کریگا ۔ بلکہ سر پرست وصدر کل جماعت رضائے مصطفی اپنے اختیارات ِخصوصی سے نامزد فرمایا کریں۔ جبل پور کے اس کل ہند جماعت رضائےمصطفی کے خصوصی اور انقلابی اجلاس سے قبل امام احمد رضا محدث بریلوی کے عرس کے موقع پر ٢٦ صفر المظفر ١٣٨٣ھ ۔١٨جولائی ١٩٦٣ء کو کل جماعت رضائے مصطفی کا مر کزی انتخاب عمل لا یا گیا ۔۔۔جس میں حضور مفتئی اعظم بریلوی سر پرست ، مفتی برہان الحق جبل پوری کو کل ہند کا صدر ، اور مولانا ابو الوفا فصیحی غازی پوری کو نظم منتخب کیا گیا تھا ۔ ۔۔ بعد ہ اجلاس جبل پور میں بقیہ عہد یدار وں کا انتخاب عمل میں آیا ۔ ٭نائب صدر اول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا مدنی کچھوچھوی ۔ ٭نائب صدر دوم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفتی رفاقت حسین ، احسن المدارس کا نپور ۔ ٭نا ظم اعلیٰ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا علی محمد دھوراجی ، راج پیلا بھڑوچ ۔ ٭نائب ناظم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عبد الصمد مجنون جبل پوری ۔ ٭نائب ناظم و خازن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سید حمایت رسول رضوی جامع مسجد بریلی (١) علاوہ ازیں متعدد جلیل القدر علماء کو کل ہند جماعت رضائے مصطفی کو ور کنگ کمیٹی کاممرنامزد کیا گیا ۔۔۔۔۔اس طرح حضور مفتئی اعظم بریلوی کی سر پرستی میں جماعت رضائے مصطفی کی نشاۃ ثانیہ نے اسلامیان ہند کی مذہبی ، قومی ،اسلامی ضرورت کو پورا کردیا ۔
|  HOME  |